Monday 31 December 2018

مجھے تب ہی مار دیتے

میں نے جب سے ہوش سنبھالی میں نے دیکھا کہ نوے فیصد خواتیں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو بیٹا ہو۔ مجھے چڑھ ہوتی۔۔۔۔ سوچتا کہ عورتیں کتنی پتھر دل ہوتی ہیں عورت عورت کی دشمن ہے۔ مگر آپ اس تحریر کو پڑہھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک عورت ایک اور عورت کو جنم کیوں نہیں دینا چاھتی۔۔۔۔۔اس لیئے نہٰیں کہ اسے عورت سے نفرت ہے اور بیٹے سے محبت۔۔۔۔ بلکل نہیں عورت جب ماں ہوتی ہے تو وہ صرف ماں ہوتی ہے اس کی نظر میں بیٹے یا بیٹی کا فرق نہیں ہوتا۔ مگر عورت ہونے ک ناطے وہ عورت پر ہونے والے ظلم سے مکمل طور پر باخبر ہوتی ہے اور ممتا کی زمہ داری کی خاطر وہھ نہٰیں چاہتی کہ اس کی اولاد ایسا ظلم سہے اس لیے وہ دعایں کرتی ہے۔ تعویز گنڈھے کرواتی ہے۔ منتیں مانگتی ہے۔ درباروں پر سلامیاں دیتی ہے۔۔۔۔ حد سے گزر جائے تو جادو ٹونے بھی کر جاتی ہے کہ اسے بیٹا ہو۔ بیٹی نہ ہو۔یہ علت اس کی جبلت میں ہے اور اس سارے عمل اور خواہش کا اسے علم تک نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ بیٹی کا ڈر اس کے ما فی الضمیر مییں ہوتا ہے۔ جس سے وہ بچتی ہے۔۔۔۔
اصل میں جب ایک عورت بیٹی کی نہیں بیٹے کی خواہش کر رہی ہوتی ہے تو اس پر دکھ نہ کیجے ۔۔۔ دکھ کیجیے اپنی سوچ کا۔ اپنے معاشرے کی روش کا اپنے مرد ہونے کی کھلی ہوئی نکیل کا اہر احتساب کیجیے اپنے طور طریقوں کا۔ عورت کو دھوکا دینا، محبت کے جھال میں بنھسانا۔ اسے خواب دکھا کر استعمال کرنا۔۔۔ اسے انسان کی بجائے چیز سمجھنا ۔کھلونا سمجھنا ، خوبصورتی اور بد صورتی کو معیار بنا کر تماشا بنانا بند کیجیے۔۔۔۔ پھر دیکھیے عورت بھی بیٹی کا ماں بننا فخر سمجھے گی۔ جب ایک عورت جگہ جگہ لمحہ بہ لمحہ زلت اور مصیبت سہتی ہے۔۔۔۔اسے محبت کے نام پر دھوکا دیا جا چکا ہوتا ہے۔ اسے سانس تک لینے کے آداب سکھائے جاتے ہیں۔ کھلونوں تک خریدنے اور منتخب کرنے پر پابندیاں ہون گی کہ یہ کھلونا تو لڑکوں والا ہے۔ یہ آزادی تو لڑکوں کے لئے ہے ۔۔ لڑکیون کا اس سے کیا کام۔ قہقہہ لڑکا لگا سکتا ہے لڑکی صرف مسکرائے اور وہ بھی چادر کی اوٹ میں۔۔اتنا ظلم بند کیجیے کہ جب لڑکی سوچے کہ میں جب پیدا ہوئی تھی تو تب ہی مار دیتے۔
( میں ہر مذہب کا اخترام کرتا ہوں اور مجھے پتا ہے کسی بھی مذہب میں عورت پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ جس سے وہ ایسا سوچے ک میں جب پیدا ہوئی مجھے تب ہی مار دیتے۔۔اس لیے میری کسی بھی بات کو مذہبی اختلاف نہ سمجھا جائے، میرا اختلاف معاشرتی اور انسانی خود ساختہ تہذیبی آداب سے ہے ہیں۔ ) نظمیہ نثر
پڑھیے اور ااپنی رائے کا اظہار کیجیے۔۔۔ مجھ سے اختلاف ہے تو کھل کر اختلاف کیجیے مگر دلیل اور بات سے مجھے قائیل کیجیے۔ شکریہ



تب ہی مار دیتے۔
بابل! جب ماں نے پہلی بار تمہیں بتایا کہ میں اس کے پیٹ میں ہوں۔
اور تم نے خوشی سے کہا کہ مجھے بیٹی چاہئے ۔
ماں نے کہا اسے تو بیٹا چاہئے۔
تو میرے بابل تم مجھے ماں کے پیٹ میں تب ہی مار دیتے۔
----------------------------------------------------------------------------------
بابل ! جس وقت میں پیدا ہوئی ۔
تم نے مجھے خوشی سے اٹھایا
میری دادی کو دیکھایا اور کہا کہ تم میری پیدائش پر مٹھائی بانٹو گے
دادی ناراض ہوئی اور کہا میرے بھولے بیٹے
بیٹی کی پیدائیش پر مٹھائی نہیں بانٹی جاتی
اور دادی کے چہرے پر دکھ تھا اور وہ دکھ دیکھ کر
میرے بابل تم مجھے تب ہی مار دیتے۔
------------------------------------------------------------------------
بابل! میری پہلی ہنسی نے تمہاری روح کو خوشی سے سرشار کیا تھا
مگر ماں خوشی کے ساتھ ایک خوف میں بھی مبتلا ہوئی سی تھی۔
میری پہلی بات سے تمہیں کائنات چہچیہاتی سی لگی
مگر ماں ، میری آواز کی اونچائی، سے ڈری
میرے لہجہ کی شفافیت سے گھبرائی
بابل ! جب میری ماں میری وجہ سےخوف کھا گئی۔
ڈر گئی ، گھبرا گئی
مجھے تم تب ہی مار دیتے۔
-----------------------------------------------------------------------------
بابل! تم نے میرے لئے مدرسے کی بات کی
ماں ناراض، دادی غصہ،
چچا، ماما۔ خالہ، مامی سب نے تمہیں باتیں کیں
اور میرے اسکول کی وجہ سے سب نے تمہارا حقہ پانی بند کر دیا۔
بابل جب میری وجہ سے سب رشتہ دار تم سے ناراض ہو گئے تھے تو
مجھے تم تب ہی مار دیتے۔
----------------------------------------------------------------------------
بابل! میری تعلیم
تم بابل سے بابا ،بابا سے ابو ،ابو سے ڈیڈی، ڈیڈی سے ڈیڈ ،ڈیڈ سے پاپا ہوتے گئے
میرے الفاظ بدلتے گئے، خیالات میں جدت آئی ۔
مگر تمہارا پیار تمہاری شفقت نہیں بدلی
تمہارا پیار مزید بڑھتا گیا اور ساتھ میں ماں کی پریشانی ماتھے پر تحریر ہونا شروع ہوئی۔
تمہاری شفقت ، محبت اور اعتماد سے میں نے اڑنا سیکھا
خواب دیکھے، معصومیت اور بھولا پن مئجھے تم سے ورثے میں ملا۔
بابا ! مجھے تم نے پیار دیا، محبت دی، شفقت دی،
میرا سائبان بنے رہے۔
میری چھائوں تم تھے۔
مجھے علم دیا۔
خواب دیکھنے والی آنکھٰن دی۔
اور بھولا پن دیا
بابا! جب میری جبلت نے تم سے بھولا پن لیا تھا
مجھے تم تب ہی مار دیتے۔
-----------------------------------------------------------------------------------
بابا! میں بڑی ہوئی
میں نے تو تمییں دیکھا تھا۔
تم سچے تھے۔ تم کھرے تھے۔ تم اچھے تھے۔
اور میں ماں کی باتوں پر ہنس دیتی تھی
جب وہ میری آواز کو دھیما کرنے کا کہتی میں اور اونچا بولتی کیوں کہ تم ہنستے تھے
جب وہ میری مسکراہٹ کو اپنی آنکھ کے اشارے اور چہرے پر رعب کے زریعے قابو کرنے کی کوشش کرتی تو میں قہقہہ لگا دیتی کیوں کہ تم ہنستے تھے۔
بابا میں ماں کے ڈر کو تمہارے ہوتے بلا وجہ سمجھتی تھی۔
ماں کہتی وہ نکڑ پر جو لڑکا تمہں سکول جاتے دیکھتا ہے اس پر دیہان مت دینا
وہ تمھاری پھوپھو کا بیٹا اس سے دور رہنا
وہ ماں کے بھائی کا بیٹا تو آفت تھی اور ماں اس کے ہوتے کتنی نظر رکھتی تھی ہم پر
اور کالج کی کینٹین میں چائے پیتے جو دیکھ رہا تھا اس کی نظر میں بھی کتنا پیار تھا۔
بابا! چاچو،خالو۔ اور ان کے بیٹے مجھے تو سب تم ہی لگتے تھے۔
مجھے دنیا کا ہر مرد تم ہی لگتا تھا۔۔۔۔
مگر وہ جو دیکھ رہا تھا اس کی نظر میں بھی پیار تھا۔۔، مگر تم سے الگ تھا
بابا ! وہ تم سا تو تھا مگر تم سے جدا نظریں تھی۔
بابا ہماری بات ہوئی ۔ اس نے دوستی کا نام دیا۔
ہماری عادت ہوئی اس نے پیار کا نام دیا
ہمارا پیار بڑھا اس نے محبت کا نام دیا۔
بابا کتنے نام تھے جو مجھے تم نے نہ سکھائے تھے۔
کتنی باتیں تھی جو مجھے تم نے نہ سمجھائیں تھی
بابا ! مجھے محبت ہوئی اور مجھے پتا چلا
کہ کتنی آنکھیں تھی جو مجھے روز بے لباس کرتی تھی۔
کتنے الفاظ مجھے پھاڑ کھانے کو ہوتے تھے۔
کتنے لہجے میری روح کو چیرنے کی کوشش میں ہوتے تھے۔
وہ جو مجھے تم لگتے تھے تم نہ تھے
وہ چہرے جن میں جھلک تھی تماری نقاب زن تھے
اور وہ جو حالتوں کو دوستی پیار محبت کے نام دیتا تھا
اسے تو میں چاہیے ہی نہ تھی۔
وہ ہونے والے سسر کی دی ہوئی گاڑی میں کالج آتا اور ڈھنگیں مارتا
وہ کینٹکی میں سسر کے ہاں ملنے والی نوکری پہ خوش
اور تمھاری بیٹی مسلسل راتوں کو جاگتی اور خوب روتی۔
صبح تمھارے ہنستےچہرے کی شفقتت کے نور سے جب فیضیاب ہوتی
تو روح کے زخم شفا پاتے
دل کی خالت سنبھل سی جاتی
تمہارا ہاتھ جب سر پر آتا
تو دل میں خوشیاں مچل سی جاتی۔
اور جھکی آنکھوں سے ٹیڑھی نظروں سے میں ماں کو تکتی
جو کیا خبر کہ سب جانتی تھی
جو اس کی بیٹی پہ بیتتی تھی
مجھے اس کے چہرے میں اپنا دکھتا
میں خود کو اس کی روح پاتی اور
دکھوں کی کروٹ سے دہل سی جاتی۔
کہ اس دن کینٹینن میں جب میری نظر اٹھی تھی
کہ نظر اٹھانے کہ جرم میں مٰٰیں اب جو مرتی ہوں لمحہ لمحہ
اب زہن میں سب گھومتا ہے تو سوچتی ہوں۔
تو گھر میں آ کر تمہیں بتاتی
چہ جا کہ میں پاک دامن ہی رہی تھی
مگر میں جرم محبت کا کر چکی تھی
نظر اٹھانے کے جرم میں جو میں روز مرتی ہوں
اس سے بہتر تھا
میں جرم محبت کا تم کو بتاتی
اور مجھے تم تب ہی مار دیتے۔
--------------------------------------------------------------------
بابا! جو ماں اور تم نے خاندان ڈوھونڈا تھا
جو لڑکا تم نے اپنی بیٹی کا سائبان بنایا
وہ جو عمر بھر کی پونجی سے تم نے جہیز دیا نا
وہ کم ہے ان کو
ساس، سسر، دیور ۔شوہر ،ان کی بہینیں
کیا کیا مجھ سے شکائیتں ہیں کیا بتاٗوں
زخم زدہ تھی روح پہلے ، اب میراچہرہ بھی زخم گاہ ہے
مسکرا ہٹین خوشیاں ، سپنے ، قہقہے ختم ہوئے سب
دل کی کھیتی میں جو بھی بویا تھا سب تباہ ہے
جن گیسوئو ں کو ماں نے روغن و ناریل سے صحت بخشی تھی
اب وہ کوئی کھینچتا ہے ۔ وہ کھینچتا ہے تو درد سے جسم کانپتا ہے
جو گال بچپنے میں تم سے بات کرتے ہنستے ہنستے انار ہوتے
اب کسی کے غصے میں اٹھتے ہاتھوں سے ہیں رنگ لیتے تنور جیسا۔
تمھارے صحن و گھر کی رونق، کہ نام رحمت دیا تھا جس کو
کہ جس کو پریوں اور شہزادییوں کی تشبیہوں کی تسبیحوں میں پرو رکھا تھا
تمھاری گڑیا۔ تمھاری چندا، تمھاری بیٹی بکھر گئی ہے
عکس اپنا کبھی جو اپنیتھا ماں میں دیکھا
وہ تصویر اب مزید مجھ میں نکھر گئی ہے۔
بابا سنا ہے تم بھی بے خبر نہٰیں ہو
کہ جس طرح میں جی رہی ہوں تمہیں پتا ہے
میری چپ پہاڑ ہے تمھارے دل پر
تمھہیں سنائی دیتی ہیں میری تمام بے آواز آہیں
بابا! میں کس مصیبت میں جی رہی ہوں یہ سوچ کر تم مر رہے ہو۔
تم مر رہے ہو یہ سوچ کر میں کانپتی ہوں
یہ سوچتی ہوں
کہ فردوس مثال اپنے گھر سے جب مجھے وداع کیا تھا
تو تم تب مرے رہے تھے
خود کو مارنے سے کہیں تھا بہتر
کہ اس وحشت کدہ میں میں بھی مر رہی ہوں
تم بھی مر رہے ہو
تو مجھے ہی تم تب مار دیتے
مجھے تم تب ہی مار دیتے۔
-----------------------------------------------------------------------------------
بابا! جو پریوں شہزادیوں کی کہانیاں تھی وہ کہاں ہیں؟
کہ حقیقتوں کو جن کومیں نے جانا ؛میں؛ ہوں ،؛ ماں؛ ہیں۔
کہ ماں اور بیٹی کے دکھوں میں کتنا سانجھہ پن ہے
مٹھائی بانٹی جا رہی ہے سسرالیوں میں
کہ کچھ دنوں میں کلکاریوں سےگھر سجے گا۔۔
میرا شوہرچاہتا ہے مٹھائی بانٹے کہ بیٹی آئی
میں خدا سے یہ چاہتی ہوں ایک بیٹا ہو آپ جیسا
میں نہ چاہوں ہو میری بیٹی جو کبھی یہ سوچے
کہ میں اب جو مر رہی ہوں تھا اس سے بہتر
کہ جس گھڑی میں پیدا ہوئی
میرے محب میرے اپنے
مجھے تب ہی مار دیتے
----------------------------------------------------------------